اپنے چہرے کی ضیا دے کے اجالو مجھ کو
پر سکوں جیتا ہوں، الجھن میں ہی ڈالو مجھ کو
نیند اتری نہیں آنکھوں میں بڑی مدت سے
ریشمی زلف کے سائے میں سلا لو مجھ کو
ڈھونڈ لو پہلے خطاؤں کا مِری کوئی ثبوت
بے سبب یوں تو نہ محفل سے نکالو مجھ کو
نفرتیں میرے تعاقب میں چلی آتی ہیں
عین ممکن ہے بکھر جاؤں، سنبھالو مجھ کو
میں نے سر بار لیے وہ جو مِرے تھے ہی نہیں
قرب اتنا سا کرو مجھ سے چرا لو مجھ کو
ہاتھ ہے دوست، کوئی کاسہ گدائی کا نہیں
تھام لو بڑھ کے اسے، ایسے نہ ٹالو مجھ کو
داستاں کوئی، کتھا ہے، نہ کہانی کوئی
کچھ اگلنے کا نہیں، جیسے کھنگالو مجھ کو
آج برسات ہے، بادل ہے، فضائیں مہکی
گیت ہوں پیار کا، ہونٹوں پہ سجا لو مجھ کو
جس کی حسرت تھی تمہیں میں وہ تمہاری منزِل
گر ہوں محنت کا صلہ، اپنا بنا لو مجھ کو
رشید حسرت
No comments:
Post a Comment