Monday 19 August 2024

حضرت آدم سے پیدا ہو گیا جب آدمی

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

اقتباس از"لولاک" منظوم سیرت رسول پاکﷺ  حصۂ اول ولادت سے پہلے


حضرتِ آدم سے پیدا ہو گیا جب آدمی

سمتِ امکانات میں بڑھنے لگا جب آدمی

سینۂ صحرا میں ہر دم جگمگاتا تھا کوئی

تیرہ و تاریک لمحوں سے گزرنے کے لیے

٭

آدمی کے راستوں میں رنگ بھرنے کے لیے

تہہ بہ تہہ تنہائی کی تہہ میں اترنے کے لیے

بحر و بر کی وسعتوں سے دامنِ افلاک تک

گونجتی تھی اک تڑپ تخلیق کی دیوانہ وار

٭

خلوتوں کی خاک میں لپٹے ہوئے دن بیقرار

اور سنّاٹوں کے آگے بے قبا شب شرمسار

اک طرف مبہم عقائد دوسری جانب فریب

بیچ میں بیٹھے ہوئے بے دست و پا شام و سحر

٭

پربتوں کی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے سوکھے شجر

ہنہناتی، ہانپتی، ہنستی، ہوا کے دوش پر

ایک قطرہ آگ کا رکھ دیں تو کتنی وادیاں

خاک ہو کر خوف کے طوفاں اٹھا دیتیں کئی

٭

وادیاں جو آگ کے دریا بہا دیتیں کئی

خامشی کے خول میں فتنے جگا دیتیں کئی

اور ٹھنڈی ریت پر لیٹا ہوا تنہا بشر

چونک کر پھر سر جھکا دیتا کسی کے سامنے

٭

ہر طرف بے روح منظر آدمی کے سامنے

ایک بھی چلتی نہیں تھی تیرگی کے سامنے

روشنی کے نام پر اڑتی ہوئی چنگاریاں

ہائے پھیلا تھا جہاں میں بے بسی کا سامراج

٭

ریت کے ٹیلوں سا اڑتا ابن آدم کا مزاج

منتشر، بے ضابطہ، بے مدعا سارا سماج

وحشتوں کا رقصِ پیہم جلوتوں کی گود میں

جلوتوں کے جسم پر جلتے ہوئے جوالہ مکھی

٭

ہاتھ میں پتھر لیے آواز کی بے چہرگی

ڈوبتے سورج کے پیچھے پاگلوں سی دوڑتی

اور کسی بے شکل بت کے سامنے پھن کاڑھ کر

ناچتا تھا خواہشوں کا ناگ دن ہو یا کہ رات

٭

ساعتوں کے دوش پر بیٹھے جنوں کے جنگلات

غار کے اندر مسلسل موت سے لڑتی حیات

صبح صادق کے اجالوں سے معانی کچھ نہ تھے

کوئی بھی واقف نہیں تھا شام کی تحریر سے

٭

ذہن و دل سہمے ہوئے ناکردہ ہر تقصیر سے

ہر عمل جیسے بندھا ہو جہل کی زنجیر سے

جب ستارہ ٹوٹتا کوئی سرِ آغوشِ شب

ہر جہت، ہر منزل و مرکز پہ چھا جاتا سکوت

٭

بھیڑ میں روتا کبھی ویرانوں میں گاتا سکوت

اور کبھی آسیب بن کر سر پہ منڈلاتا سکوت

ہر نئے احساس کو دعویٰ خدائی نور کا

نور کا چہرہ معاً آواز کے اشکوں میں غرق

٭

جستجو کی جنگ میں الجھے ہوئے تھے غرب و شرق

آدمی کرتا نہ تھا خوف خدا میں کوئی فرق

تتلیوں کے پر چمکتے تھے، گلوں پر رنگ بھی

دیکھنے والے مگر بینائی سے محروم تھے

٭

آبشاروں کے دھڑکتے دل بہت مغموم تھے

راز ان مضطر کناروں کے کسے معلوم تھے

سرسراتا جب سروں پر سرد سناٹے کا سانپ

فاصلے سب چیخ اٹھتے قربتوں کی چاہ میں

٭

ہر گھڑی پاتا زمانہ خود کو آفت گاہ میں

ظلمتوں کا رقص ہوتا ہر گلی، ہر راہ میں

سوچ کا سایہ سلاخوں کی سلگتی آنچ سے

پانی پانی ہو کے بہتا پتھروں کی پیٹھ پر

٭

عقل کے بے شکل پیکر اجگروں کی پیٹھ پر

اجگروں کی جیبھ ہوتی وشدھروں کی پیٹھ پر

بھول کر ساری نصیحت آباء و اجداد کی

بے تمدن آدمی تقسیم تھا اقوام میں

٭

یعنی اک سلجھا شکاری الجھنوں کے دام میں

جستجو ایمان کی جیسے خیال خام میں

میلے میلے منہ چھپاتے سب حقائق دہر کے

سر کے بل بے حس کھڑے تھے وقت کی چٹان پر

٭

اولیں نبیوں کی باتیں کون دھرتا کان پر

شر کا نشہ چڑھ گیا ہو جب ہر اک انسان پر

پیڑ کی پھنگی پہ بیٹھا لذتوں کا بھوت بھی

ثبت تھا اذہان و دل پر دیوتا کے روپ میں

٭

بکریوں کے سامنے مشکل کشا کے روپ میں

کوئی چرواہا نہ تھا مہر و وفا کے روپ میں

میمنوں کے منہ بندھے تھے مار کی زنجیر سے

دھجیاں بکھری ہوئی تھیں پرچمِ توحید کی

٭

خواب کی آنکھوں کو اور دل کو تمنا عید کی

لمحہ لمحہ تھی ضرورت فہم کی تجدید کی

اور خلا میں کر رہا تھا اسمِ اعظم کی تلاش

بےکراں، بے انت دنیاؤں کا یہ شمسی نظام

٭

آسماں کی وسعتوں کو ذہنِ انساں کا سلام

فکر کی پرواز کو جن سے ملی عمرِ دوام

تیز تیز اٹھنے لگے آگے تجسس کے قدم

طائرِ تحقیق کی اُمت بڑی ہونے لگی

٭

عزم کے سینے میں پھر کچھ روشنی ہونے لگی

بے خبر دُنیا جہالت سے بری ہونے لگی

سبز دھرتی کی مہکتی فصلِ گُل کے ساتھ ساتھ

عالمِ بالا نے بھی وا کر دئیے رحمت کے باب

٭

اور ابراہیمؑ اُترے دشت میں لے کر شہاب

ہاتھوں میں اُجلے صحیفے، ہونٹوں پر وحدت کے گیت

آدمی کے واسطے انسان کی عظمت کے گیت

٭

پتھروں کی بھیڑ میں گونجی صدا اک پیار کی

کفر سے انکار کی اور جرأت اظہار کی

اونگھتی سب رہ گزاروں نے بھی کی محسوس پھر

ہر نفس اک نرم نکہت نصرت و ایثار کی

٭

ہر جبل پر جلوہ گر جادو جمالِ عشق کا

ہر سمندر کی جبیں پر موجزن طوفان ہوش

جیسے روشن رفعتوں پر جستجو کا آفتاب

اور ابراہیمؑ اترے دشت میں لے کر شہاب

٭

شرک کی اونچی حویلی، کافروں کی عیش گاہ

اور نادانوں پہ اپنا راج کرتے رو سیاہ

عقل کی آندھی کے آگے یوں ہوئے بے بس، کہ بس

سر جھکا کر رہ گئے سارے بتانِ کج کلاہ

٭

گرم تپتی ریت کے سینے سے پھوٹا آبشار

سو بہ سو سب کوہ و صحرا میں اذاں ہونے لگی

ماند سا پڑنے لگا مہمل عقیدوں کا شباب

اور ابراہیم اترے دشت میں لے کر شہاب

٭

ہو گیا تعمیر اس دنیا میں گھر اللہ کا

مل گیا بھٹکے ہوئے لوگوں کو در اللہ کا

آدمی کی اجتماعی زندگی نے پا لیا

ایک سچا دین، اک پیغامبر اللہ کا

٭

آسماں تا آسماں اور بحر و بر تا بحر و بر

اک نئے اجلے تمدن کی بنا رکھ دی گئی

کھل اٹھے صحنِ زمیں پر سوچ کے سیمیں گلاب

اور ابراہیمؑ اترے دشت میں لے کر شہاب

٭

تھا نہیں دنیا میں کوئی اس حقیقت کا جواب

تیرگی پر چھا گئی تھی عقل بن کر آفتاب

زندگی کی راہ میں بکھری ہوئی تھی روشنی

گرچہ اہلِ حق کے دن اکثر خراب آئے گئے

٭

اور پھر صدیوں نے دیکھا انقلاب آئے گئے

نسلِ ابراہیمؑ پر لاکھوں عذاب آئے گئے

خانۂ کعبہ کا پر پتھر بنا اک دیوتا

پھر گئے اہلِ عرب توحید کی تعلیم سے

٭

کاروانِ زیست بے پرواہ فنِ تنظیم سے

قوم کا ہر فرد ناواقف کسی تفہیم سے

ناچتا تھا عرورتوں کے گرم عریاں جسم پر

ایک بگڑے دین کا پرچم اٹھائے روز و شب

٭

آدمی کے خونِ ناحق میں نہائے روز و شب

دامنِ خاکی میں اپنا منہ چھپائے روز و شب

ریت کے ٹیلوں کو اوڑھے، پتھروں پر سر دھرے

اپنی بے قدری پہ ہر لمحہ تھے کتنے بے قرار

٭

عصرِ وحشی ہو کے پاگل اونٹنی پر تھا سوار

بستیوں میں بے خطر پھنکارتی نیزوں کی دھار

مفلس و مجبور ماؤں کی کمر کو توڑتا

لڑکیوں کی جانگھ سے لپٹا زناکاروں کا خوف

٭

تمبوؤں میں جاگتا ہر رات خونخواروں کا خوف

اور دن میں سر پہ منڈلاتا سیہ کاروں کا خوف

بھیڑیوں کی بھیڑ سا نو عمر فصلیں روندتا

جانور کی عقل والے حکمراں طبقوں کا طیش

٭

وہ کوئی جاہل قبیلہ ہو کہ ہوں اہلِ قریش

زندگی کا ایک مقصد فتنہ سازی، دادِ عیش

بت پرستی، بد شعاری، اور بد عنوانیاں

جہل میں لتھڑے سماجوں کے یہی عنوان تھے

٭

سامنے منزل تھی لیکن راستے ویران تھے

فکرِ فردا، جاہِ ماضی سے سبھی انجان تھے

ایک مٹھی ریت میں سو آبشاروں کی صدا

سامنے آبادیوں کے سن رہا تھا آسماں

٭

عقل پر پتھر وہ برسے تھے کی احساسِ زیاں

اڑ رہا تھا پتھروں کے چار سو بن کر دھواں

یہ دھواں جو دھیرے دھیرے آگ بن کر ایک دن

چشمۂ زم زم کے دھارے کی طہارت پی گیا

٭

شام کے سب رنگ، صبحوں کی صداقت پی گیا

دیوتاؤں کا بھرم، حق کی حرارت پی گیا

اور صحراؤں میں کرتا امن کی بوٹی تلاش

اک کلہاڑا اپنے کاندھے پر دھرے عربی جنوں

٭

شہر ایماں میں نمایاں شر کی شہرت کے ستوں

اور آسیبوں کے آگے سب سہارے سر نگوں

رات کے سینے پہ خنجر بن کے ننگا ناچتا

خواہشوں کا ایک بے رام اجگر صبح تک

٭

خیمہ خیمہ خامشی کی تہہ میں اکثر صبح تک

چیختی، چنگھاڑتی سانسوں کا محشر صبح تک

صبح کے زریں اجالوں میں غلاموں کا ہجوم

دوڑتا تھا پیٹھ پر لادے اندھیروں کا پہاڑ

٭

سر پٹختے خانۂ کعبہ کے وہ بوڑھے کواڑ

دیکھتے جب بت پرستوں کی مسلسل بھیڑ بھاڑ

راج تھا راجہ ہبل کا اور دیوی نائلہ

اپنے آنگن میں نچاتی حاکم و محکوم کو

٭

تھی کسے فرصت کہ سمجھے ساعتِ مغموم کو

شب بہ شب بڑھتے ہوئے اسرار کے مفہوم کو

روح سے لپٹا ہوا لذت پرستی کا دھواں

جس کی پہنائی میں گم تھی مشرکوں کی کائنات

٭

مرکز افکار و عنوان سخن لات و منات

ہاں انہیں سے حرکت و برکت انہیں سے تھی حیات

معجزہ یہ تھا کہ کوئی معجزہ دیکھا نہیں

پھر بھی پتھر کا پجاری ہر کوئی دیوانہ وار

٭

تھا عرب کی سرزمیں کو اس نبی کا انتظار

لمس میں جس کے تقدس، قرب میں جس کے قرار

مضطرب تھا شہر، مکہ اک مفکر کے لیے

سانپ کی صورت مسائل تھے جہاں پر کو بہ کو

٭

بے حیائی اور بد ذوقی کے منظر کو بہ کو

جبر کے جبڑوں میں جکڑی بنتِ مادر کو بہ کو

شرم سے آنکھیں جھکا لیتے ستارے عرش پر

جب برہنہ شب بناتی اپنی زلفوں کو لباس

٭

رقص و موسیقی کی محفل اور دارو کے گلاس

قوم آدم تھی کہ ہر دم راہِ حق سے ناشناس

پربتوں کے دوش پر بیٹھا سکوتِ مضمحل

جی رہا تھا اک رفیق و رہنما کی آس میں

٭

چندربھان خیال

No comments:

Post a Comment