ملحدوں کا کمرہ
ایک بے نام سی وحشت کو سجاتے وہاں جاتا تھا
دوست گمنام طریقت کو اُٹھاتے وہاں جاتا تھا
ایک سے دو بجے روز تمحیصِ وجود ہستی
خام حیرت کے ستائے وہاں جاتا تھا
دوست کے پاس کتابیں تھیں
کتابوں کے حوالے تھے
سُنانے کو کہانی تھی کوئی اُلجھی اُلجھی
دوست کے پاس دکھانے کو کئی قبریں تھیں
مجاور تھے، کئی کتبے تھے
دوست کے پاس یقین تھا کوئی ٹوٹا پھوٹا
پر کہیں عشق کا زعم بھی تھا جسے وہ جھٹلاتے تھے
(عشق کا زعم معمہ ہے، خلا ہے
یہ کوئی اُمید تو ہو سکتا ہے، منزل کیسے؟)
وہ اُسے اس کی زباں بول کے بتلاتے تھے
حاشیے پڑھ کے سُناتے تھے اُسے
ورق پہ ورق کھرچتے تھے کہ تحریر اُبھرے
کوئی تکرار اُجاگر ہو، کوئی تقریر اُبھرے
مور پنکھ اتنے سوالوں کے بکھرتے تھے جو کمرے میں تھا بھاگ اُٹھتا تھا
چار سے پانچ بجے اور کتابوں کے لیے
اور حوالوں کے لیے، اور کہانی کے لیے
آصف محمود
No comments:
Post a Comment