Saturday, 29 May 2021

اداسیوں سے مقدر چھڑا نہیں سکتی

 اُداسیوں سے مقدر چھُڑا نہیں سکتی

میں چاہ کر بھی تِرے پاس آ نہیں سکتی

تمام عمر انہی سے رہوں گی محوِ سخن

تمہارے بھیجے ہوئے خط جلا نہیں سکتی

خیالِ یار میں اسیر ہوں زمانے سے

رہائی پا تو لوں اس کو بھلا نہیں سکتی

لبوں پہ ثبت ہیں یوں تو خُوشی کہ گیت مگر

جو چوٹ دل پہ لگی ہے دِکھا نہیں سکتی

میں ایک لڑکی روایات کے قبیلے کی

نگاہِ ناز میں سپنے سجا نہیں سکتی

سکوت اب تو حرا گھُل چکا ہے شہ رگ میں

سو مر تو سکتی ہوں پر لب ہلا نہیں سکتی


حرا قاسمی

No comments:

Post a Comment