آئینہ در آئینہ قد آوری کا کرب ہے
گمشدہ دانشوری ہے خود سری کا کرب ہے
میرا دُکھ یہ ہے کہ میں نا معتبر لشکر میں ہوں
سر بہ نیزہ میں نہیں ہوں اک جری کا کرب ہے
بھوک کو نسبت نہیں گیہوں کی پیداوار سے
میرا دسترخوان خالی طشتری کا کرب ہے
اک طرف یاروں کی یاری کا بھرم کھُلتا ہوا
اک طرف اخلاص کی بخیہ گری کا کرب ہے
اپنے دروازے پہ بیٹھا سوچتا رہتا ہوں میں
میرا گھر اجداد کی بارہ دری کا کرب ہے
وہ زمانہ ہے کہ اب تارِ نفس بھی ہے گراں
بعد کی منزل تو بس خوش پیکری کا کرب ہے
وقت کی میزان پر بینائی خنداں ہے شرر
کور بینوں میں بھی اب دیدہ وری کا کرب ہے
کلیم حیدر شرر
No comments:
Post a Comment