سینے میں اس کے تیر و تبر چھوڑ جاؤں گا
میدانِ کار زار میں سر چھوڑ جاؤں گا
جب رن پڑا بنامِ وقارِ حدودِ دِیں
دشمن کو کر کے زیر و زبر چھوڑ جاؤں گا
شمشیر بھی قلم بھی ہے اب ہاتھ میں مِرے
تاریخ کی جبیں پہ ہُنر چھوڑ جاؤں گا
میں دار پر جلا کے سروں کے چراغ پھر
ظلمت میں ایک نورِِ سحر چھوڑ جاؤں گا
کوفہ مزاج قوم یہ قابل اسی کے ہے
بستی کے تخت پر میں شمر چھوڑ جاؤں گا
چلنا ہے ساتھ میرے تو طے کچھ اصول کر
بدلا جو تُو، میں بیچ سفر چھوڑ جاؤں گا
حاکم! ڈرا تُو اور کسی کو صلیب سے
دار و رسن پہ حق کے گجر چھوڑ جاؤں گا
نکلوں گا یہ علم میں صداقت کا لے کے اور
حامی جہاں میں اپنی خبر چھوڑ جاؤں گا
حمزہ حامی
No comments:
Post a Comment