تمہارے بعد کہاں کچھ نظر میں رکھتے ہیں
بجھے چراغ فقط اپنے گھر میں رکھتے ہیں
سکوتِ کنجِ قفس سے ہیں مضمحل، ورنہ
غضب کے حوصلے ہم بال و پر میں رکھتے ہیں
رواں دواں ہیں سہولت سے منزلوں کی طرف
تمہاری یاد جو رختِ سفر میں رکھتے ہیں
یہ صرف اشک نہیں ہجر میں سرِ مژگاں
تمہارے خواب بھی ہم چشمِ تر میں رکھتے ہیں
گوارا کیسے کریں اس کی تمکنت شہباز
کہ کچھ تو ہم بھی ہوا اپنے سر میں رکھتے ہیں
شہباز راجہ
No comments:
Post a Comment