ظلمت کے سوا پیشِ نظر کچھ بھی نہیں ہے
ہاتھوں میں دیا زادِ سفر کچھ بھی نہیں ہے
آندھی کا کوئی خوف و خطر کچھ بھی نہیں ہے
بستی میں مِرے نام کا گھر کچھ بھی نہیں ہے
رستے کی نہ منزل کی خبر جان سکا میں
کس سمت چلا جاؤں خبر کچھ بھی نہیں ہے
قسمت میں نہیں زخمِ جگر کے ہے شفا کچھ
یا اب کے دعاؤں میں اثر کچھ بھی نہیں ہے
آثار تلاطم کے ابھی اور میں تنہا
بستی میں کوئی فردِ بشر کچھ بھی نہیں ہے
محفوظ رہوں کیسے میں اس موجِ بلا سے
دیوار کوئی پاس شجر کچھ بھی نہیں ہے
عارف یہ کیا رب نے عطا فیض اسی کا
ہاتھوں میں مِرے ورنہ ہنر کچھ بھی نہیں ہے
جاوید عارف
No comments:
Post a Comment