وہ تجدیدِ وفا کی کیا گھڑی تھی
مِری توبہ مِرے آگے کھڑی تھی
قدم اُٹھتے نہیں تھے تیرے گھر کو
عجب مشکل سی مجھ پہ آ پڑی تھی
انگوٹھی میں خلا دُکھ درد کا تھا
نگینہ بن کے اس میں میں جَڑی تھی
بس اک جیون میں سُلجھاتی میں کیسے
یہ اُلجھن عمر میں مجھ سے بڑی تھی
مِرا جو قافلہ تھا کیا ہُوا وہ؟
جو دیکھا مُڑ کے اک میں ہی کھڑی تھی
صوفیہ بیدار
No comments:
Post a Comment