Sunday, 30 May 2021

ہر اشک نیا ہجر مناتے ہوئے گزرا

 ہر اشک نیا ہجر مناتے ہوئے گُزرا

ہر لحظہ یہی قصہ سناتے ہوئے گزرا

اثباتِ گُل راز کے ہیں اور بھی آگے

گُلشن سے جو گزرا یہ بتاتے ہوئے گزرا

اجداد شجرکاری میں رکھتے تھے مہارت

میرا بھی سفر پیڑ اُگاتے ہوئے گزرا

یہ لہر کسے زور دِکھانے چلی آئی

یہ دل تو کناروں کو گِراتے ہوئے گزرا

میت پہ مِری بعد میں وہ آئے تو کہنا

جو گزرا تِری راہ پہ آتے ہوئے گزرا

وہ لمحہ ملاقات میں شامل نہ کیا کر

رض وہ جو کبھی آنکھ چُراتے ہوئے گزرا


رضوانہ ملک

No comments:

Post a Comment