کہیں سے چاند کہیں سے قطب نما نکلا
قدم جو گھر سے نکالا تو راستہ نکلا
تمام عمر بھٹکتا رہا میں تیرے لئے
ترا وجود ہی ہستی کا مدعا نکلا
تمہاری آنکھوں میں صدیوں کی پیاس ڈوب گئی
ہماری روح سے احساس کربلا نکلا
گریز کرنے لگا ہے ترے خیال سے بھی
ہمارا دل بھی تری طرح بے وفا نکلا
شکیل اعظمی
No comments:
Post a Comment