Friday 28 May 2021

راہ خیال و خواب کے گرد و غبار میں

 راہِ خیال و خواب کے گرد و غبار میں

دل کتنا شاد ہے تِرے غم کے حصار میں

آؤ کہ مان لیں کبھی اک دوسرے کی بات

رکھا ہے کیا اناؤں کی اس جیت ہار میں

اب کے تو بارشوں کے گلے لگ کے زار زار

موسم بھی رو رہا ہے تِرے انتظار میں

جن کو تمہارے ہجر کی رُت سے ہے واسطہ

کِتنے اداس ہو گئے فصلِ بہار میں

اب تک پکارتے ہیں کسی چارہ ساز کو

کچھ زخم جو نہ آئے کسی بھی شمار میں

ٹھہرا ہوا ہے آنکھ میں لمحہ وصال کا

"دونوں جہاں ہیں آج مِرے اختیار میں"

کب سے اٹھا رہے ہیں خسارے ضمیر کے

کچھ لوگ دوستی کے اسی کاروبار میں


زریں منور

No comments:

Post a Comment