Saturday 29 May 2021

قلم کی جستجو ہے پھر لکھے کوئی فسانہ اب

 قلم کی جستجو ہے پھر لکھے کوئی فسانہ اب

بیاں ہو گا کہاں تک ان دکھوں مارا ترانہ اب

گداگر کی طرح بھٹکی پھرے بازار میں غربت

دُہائی بھُوک کی دیتا غریبوں کا گھرانہ اب

گھٹا برسے مکاں کی چھت تلے ٹپ ٹپ گِرے پانی

فقیروں کے لیے تو کب رہا موسم سہانا اب

پڑوسی بھُوک سے تڑپے شکم کو تر کرے تاجر

ہمارے ہاں رہا ہے کب بھلائی کا زمانہ اب

یہاں پر تو غرض سے ہی کرے اب دوستی ہر اک

پرانے عہد جیسا نا رہا ہے دوستانہ اب

محبت بھی ضروری ہے مگر اس دورِِ حاضر میں

نہیں ہے سلسلہ کوئی محبت کا پُرانا اب

سنو دلبر پرانا ہو چکا فرہاد کا قصہ

ہوس کا کھیل ہے سارا محبت ہے بہانہ اب


ظہور عالم

No comments:

Post a Comment