اگر وہ شخص چاہے تو
تلافی اب بھی ممکن ہے
مداوا ہو بھی سکتا ہے
یہ موسم جو یہاں پر آن ٹھہرا ہے
اسے اذنِ وِداع دے کر
نئی رُت آبھی سکتی ہے
اداسی جا بھی سکتی ہے
ستارے ہنس بھی سکتے ہیں
یہی مہتاب پھر سے گیت کوئی گا بھی سکتا ہے
دلوں میں خواہشوں کے پھول پھر سے کھل بھی سکتے ہیں
یہ سارے چاک دامن کے دوبارہ سل بھی سکتے ہیں
تلافی اب بھی ممکن ہے
مداوا ہو بھی سکتا ہے
محبت نام ہے جس کا
اگر وہ شخص چاہے تو
ازہر ندیم
No comments:
Post a Comment