Sunday, 30 May 2021

تلافی اب بھی ممکن ہے مداوا ہو بھی سکتا ہے

 اگر وہ شخص چاہے تو


تلافی اب بھی ممکن ہے

مداوا ہو بھی سکتا ہے

یہ موسم جو یہاں پر آن ٹھہرا ہے

اسے اذنِ وِداع دے کر

نئی رُت آبھی سکتی ہے

اداسی جا بھی سکتی ہے

ستارے ہنس بھی سکتے ہیں

یہی مہتاب پھر سے گیت کوئی گا بھی سکتا ہے

دلوں میں خواہشوں کے پھول پھر سے کھل بھی سکتے ہیں

یہ سارے چاک دامن کے دوبارہ سل بھی سکتے ہیں

تلافی اب بھی ممکن ہے

مداوا ہو بھی سکتا ہے

محبت نام ہے جس کا

اگر وہ شخص چاہے تو


ازہر ندیم

No comments:

Post a Comment