Saturday 29 May 2021

رسوا ہوا میں اور میری مات ہو گئی

 رُسوا ہوا میں اور میری مات ہو گئی

برباد ہائے جب سے میری ذات ہو گئی

کرنے گئے تھے ان سے ہر اک بات کا گِلا

پر راستے میں دن ہی ڈھلا رات ہو گئی

ہم دُشمنوں کو ڈُھونڈنے نکلے تھے ایک دن

''اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی''

اس نے نظر ملا کے مجھے حالِ دل کہا

میرے لیے تو یہ بڑی سوغات ہو گئی

میں نے دُعاؤں کے لیے بس ہاتھ اُٹھا دئیے

چشمِ کرم کی مجھ پہ عنایات ہو گئی

چہرے پہ میرے تھی ہنسی جب وہ جُدا ہوئے

آنکھوں سے میری اشک کی برسات ہو گئی

خوف و ہراس تھا مجھے جس بات ک عقیل

نا چاہتے ہوئے بھی وہی بات ہو گئی


عقیل فاروق

No comments:

Post a Comment