کس قدر وزن ہے خطاؤں میں
ذکر رہتا ہے پارساؤں میں
واپسی پر اُتر گیا چہرہ
جا کے بیٹھا تھا ہمنواؤں میں
راز کی بات ہے دُعا نہ کرو
یاد رکھنا ہمیں دُعاؤں میں
ڈھونڈ شاید ملے پیامِ ضمیر
بوڑھے برگد کی ان چٹانوں میں
اپنی تعریف کرنے بیٹھا تھا
بات اُڑا دی گئی ہواؤں میں
چہرے بدلے ہوئے ہیں شمر و یزید
عہدِ حاضر کی کربلاؤں میں
سوچتے ہو وقار کیا تم بھی
نام آ جائے پارساؤں میں
وقار واثقی
No comments:
Post a Comment