Sunday 30 May 2021

تنہائی کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہوں

 تنہائی کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہوں

آنکھوں کی قندیل جلائے پھرتی ہوں

کون ہے جو دُکھ درد کسی کا بانٹ سکے

اپنے دل کے ساتھ لگائے پھرتی ہوں

عشق میں تیرے ہرجائی اک مدت سے

دیوانوں سا حال بنائے پھرتی ہوں

تم نے تو کر گھر اپنا آباد لیا

میں تو گھر کی آس لگائے پھرتی ہوں

تم سورج تھے چھوڑ گئے اندھیارے میں

میں سر پر لے رات کے سائے پھرتی ہوں

تیرے بعد شگفتہ میں سب لوگوں کے

گلی گلی میں طعنے کھائے پھرتی ہوں


شگفتہ ناز

No comments:

Post a Comment