تنہائی کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہوں
آنکھوں کی قندیل جلائے پھرتی ہوں
کون ہے جو دُکھ درد کسی کا بانٹ سکے
اپنے دل کے ساتھ لگائے پھرتی ہوں
عشق میں تیرے ہرجائی اک مدت سے
دیوانوں سا حال بنائے پھرتی ہوں
تم نے تو کر گھر اپنا آباد لیا
میں تو گھر کی آس لگائے پھرتی ہوں
تم سورج تھے چھوڑ گئے اندھیارے میں
میں سر پر لے رات کے سائے پھرتی ہوں
تیرے بعد شگفتہ میں سب لوگوں کے
گلی گلی میں طعنے کھائے پھرتی ہوں
شگفتہ ناز
No comments:
Post a Comment