رہی آس دل میں پلتی کہ وصالِ یار ہو گا
یہ خبر نہ تھی مجھے کہ یونہی انتظار ہو گا
تھا ازل سے مجھ کو تم پہ ترے پیار پہ بھروسہ
میری سانسیں جب تلک ہیں یونہی اعتبار ہو گا
یہ جو خون بیچتا ہے کہ سکوں خریدنا ہے
کبھی اس غریب کا بھی کوئی روزگار ہو گا
ارے چھوڑ ناں اُداسی چلو رزق ڈھونڈتے ہیں
جہاں کوئی بھی نہ ہو گا، پروردگار ہو گا
غمِ عاشقی نے ڈالا تھا مجھے سخن کی راہ پہ
یہ گُماں تھا کب کہ چھلنی دلِ داغدار ہو گا
وہ جو بے رُخی سے اپنی ذرا اجتناب کر لے
نہ تڑپ کے میں مروں گا نہ وہ سوگوار ہو گا
ابھی منتظر ہوں اِک دن وہ گلے سے آ لگے گا
میری چُپ سے وہ بھی کاشف بڑا بیقرار ہو گا
کاشف رانا
No comments:
Post a Comment