یہیں پہ ختم نہیں ہوتی ہے کہانی مِری
اب اس کے بعد مسلسل ہے بے زبانی مری
وہ تھوڑی دیر مِرا صبر آزمائے گا
بڑھا رہا ہے ابھی پیاس یار جانی مری
عجیب بات تو یہ ہے تو مجھ کو یاد رہا
کہ بھول جانے کی عادت تو ہے پرانی مری
جو ایک خواب چھُوا تھا وہ لمس ہے مرے پاس
تمہارے پاس بھی ہوتی کوئی نشانی مری
بھروں گا بانہوں میں اک روز کائنات کا حسن
جب اس کے بازو بنیں گے گلے میں گانی مری
آفتاب عارض
No comments:
Post a Comment