شہرِ دل کو مِرے ویران کیا ہے تُو نے
جان کہہ کر مجھے بے جان کیا ہے تو نے
جیسے تاریخ کی بوسیدہ عمارت ہو کوئی
میری آنکھوں کو یوں سنسان کیا ہے تو نے
اب یہاں نت نئے طوفان اٹھیں گے ہر دم
دل کی دریاؤں میں طغیان کیا ہے تو نے
اے تقاضائے غزل فکر پہ حاوی ہو کر
چاندنی رات میں ہلکان کیا ہے تو نے
دشت کی پیاس کو ہونٹوں پہ سجا کر ہمدم
بعد مدت اسے حیران کیا ہے تو نے
شامِ فرحت کے نظاروں کو مقفل کر کے
اہلِ غم کو مِرا مہمان کیا ہے تو نے
حرا قاسمی
No comments:
Post a Comment