یہ اشکوں کے گوہر لُٹانے بہت ہیں
ابھی داغ دل کے چھُپانے بہت ہیں
ابھی ہجر میرا مکمل نہیں ہے
ابھی دِیپ مجھ کو جلانے بہت ہیں
یہ زلفیں سمیٹو یہ پلکیں جھکاؤ
یہاں راستے میں دِوانے بہت ہیں
ان آنکھوں میں جاگے ہیں وحشت کے جگنو
مجھے خواب اپنے جلانے بہت ہیں
کوئی گیت لکھو محبت کا یارو
یہاں نفرتوں کے ترانے بہت ہیں
گھڑی دو گھڑی کا سفر ہے یہ حامی
مگر زخم ہم کو اُٹھانے بہت ہیں
حمزہ حامی
No comments:
Post a Comment