Monday 31 May 2021

چاندنی رات میں اس نے مجھے تنہا رکھا

 چاندنی رات میں اس نے مجھے تنہا رکھا

‎چاند سے باتیں ہوئیں مجھ کو ترستا رکھا

‎اپنے غم خانے کو یادوں سے سجایا ہم نے

‎نیند سے پھر نہ کبھی خواب کا رشتہ رکھا

‎وہ جو کہتا تھا کبھی ساتھ نہ چھوڑے گا مِرا

‎اس نے سورج کی طرح مجھ کو بھی جلتا رکھا

‎تلخ سوچیں ہیں کہ ہربار بھٹک جاتی ہیں

‎اس محبت نے بھی ہم کو نہ کہیں کا رکھا

‎اے دلِ خستہ مانگوں بھی تو کیا تیرے لیے

‎تُو نے خود ہی تو زمانے سے جدا سا رکھا

‎وہ جو موسم کی طرح خود کو بدل لیتا تھا

‎مجھ سے رشتہ بھی کچھ اس نے ہوا سا رکھا

‎پھر مِرے شہر کی فٹ پاتھ پہ تصویر بنی

‎ماں کی آغوش میں بیٹے کا ہے لاشہ رکھا

‎اب تو قسمت سے شکایت نہ زمانے سے گِلہ

‎دُکھ تو یہ ہے کہ مجھے تُو نے ہی رُسوا رکھا

‎دے دے خیرات محبت کی کبھی تُو بھی مجھے

‎سامنے تیرے مِرے دل کا ہے کاسہ رکھا

‎جب بھی تنقید کسی پر کبھی کرنا چاہی

‎سامنے دل کے خود اپنا بھی سراپا رکھا

‎ماہ و انجم کی ضیا بھی ہو مقدر اس کا

‎زیست میں جس نے مِری آج اندھیرا رکھا

‎شہرِ دل میں ہی بسایا ہے نشیمن اپنا

‎گھر کے نقشے میں تِری یاد کا نقشہ رکھا

‎صحن گلشن میں نئے پھول کھِلا کرتے ہیں

‎اک تِرا نام ترنم نے جو غنچہ رکھا


ترنم شبیر

No comments:

Post a Comment