چاندنی رات میں اس نے مجھے تنہا رکھا
چاند سے باتیں ہوئیں مجھ کو ترستا رکھا
اپنے غم خانے کو یادوں سے سجایا ہم نے
نیند سے پھر نہ کبھی خواب کا رشتہ رکھا
وہ جو کہتا تھا کبھی ساتھ نہ چھوڑے گا مِرا
اس نے سورج کی طرح مجھ کو بھی جلتا رکھا
تلخ سوچیں ہیں کہ ہربار بھٹک جاتی ہیں
اس محبت نے بھی ہم کو نہ کہیں کا رکھا
اے دلِ خستہ مانگوں بھی تو کیا تیرے لیے
تُو نے خود ہی تو زمانے سے جدا سا رکھا
وہ جو موسم کی طرح خود کو بدل لیتا تھا
مجھ سے رشتہ بھی کچھ اس نے ہوا سا رکھا
پھر مِرے شہر کی فٹ پاتھ پہ تصویر بنی
ماں کی آغوش میں بیٹے کا ہے لاشہ رکھا
اب تو قسمت سے شکایت نہ زمانے سے گِلہ
دُکھ تو یہ ہے کہ مجھے تُو نے ہی رُسوا رکھا
دے دے خیرات محبت کی کبھی تُو بھی مجھے
سامنے تیرے مِرے دل کا ہے کاسہ رکھا
جب بھی تنقید کسی پر کبھی کرنا چاہی
سامنے دل کے خود اپنا بھی سراپا رکھا
ماہ و انجم کی ضیا بھی ہو مقدر اس کا
زیست میں جس نے مِری آج اندھیرا رکھا
شہرِ دل میں ہی بسایا ہے نشیمن اپنا
گھر کے نقشے میں تِری یاد کا نقشہ رکھا
صحن گلشن میں نئے پھول کھِلا کرتے ہیں
اک تِرا نام ترنم نے جو غنچہ رکھا
ترنم شبیر
No comments:
Post a Comment