دل میں پلتے ارمانوں کا کیا ہو گا
تیرے پاگل دیوانوں کا کیا ہو گا
گاؤں چھوڑ کے جانے والے سوچنا تھا
تیرے اپنے بے گانوں کا کیا ہو گا
تجھ ہی سے تو رونق ہے میخانے کی
تیرے پیچھے پیمانوں کا کیا ہو گا
ہم تو تیری یادوں ہی میں جی لیں گے
جھگی چھپر دالانوں کا کیا ہو گا
چھپ کر ملنا، باتیں کرنا، چل دینا
تیرے ان سب احسانوں کا کیا ہو گا
خوشبو ہی جب پھولوں سے انکاری ہو
آس لگائے گلدانوں کا کیا ہو گا
جھیل کا پانی، چاندنی راتیں اپنی ہیں
دور سے آئے مہمانوں کا کیا ہو گا
ثمریاب ثمر
ثمر سہارنپوری
No comments:
Post a Comment