Saturday 29 May 2021

یوں تو وہ درد آشنا بھی ہیں

 یوں تو وہ درد آشنا بھی ہیں

پاس رہتے ہوئے جُدا بھی ہیں

جشنِ آزادگی بپا کیجے

کاسہ بردار رہنما بھی ہیں

ہے سفینہ اسیرِ موجِ بلا

یوں تو کہنے کو ناخدا بھی ہیں

یار بے مہر سے گِلہ بھی ہے

اس سے مصروفِ التجا بھی ہیں

زندگی پر ہے اختیار ان کا

بندگانِ خدا خدا بھی ہیں

اس کے دُکھ درد میں شریک رہے

دل زدہ دل کا آسرا بھی ہیں


نواب حیدر نقوی راہی

No comments:

Post a Comment