مے گُلرنگ ہے اور جام ہے کیا عرض کروں
کتنی رنگیں یہ مِری شام ہے کیا عرض کروں
کل تہِ دام مجھے دیکھ کے خوش ہوتا تھا
آج صیّاد تہِ دام ہے کیا عرض کروں
بجلیاں میرے نشیمن کو جلا دیتی ہیں
میری محنت کا یہ انعام ہے کیا عرض کروں
جانے کب سے تِری نظروں سے ملی ہیں نظریں
کب سے گردش میں مِرا جام ہے کیا عرض کروں
جو مِرے نام سے بے زار تھے اللہ، اللہ
ان کے لب پر بھی مِرا نام ہے کیا عرض کروں
لوگ کہتے ہیں مجھے ظلم و ستم کا مارا
کس کی گردن پہ یہ الزام ہے کیا عرض کروں
رُخِ پُر نُور پہ بِکھرے ہُوئے گیسو کا سماں
امتزاجِ سحر و شام ہے کیا عرض کروں
عرض کرنی ہے سعید ان سے تمنا دل کی
یہ بھی اک حسرتِ ناکام ہے کیا عرض کروں
سعید شہیدی
No comments:
Post a Comment