ایک جھونکے کی طرح دل میں اترتے کیوں ہو
گر بچھڑنا تھا تو یادوں میں چمکتے کیوں ہو
ہو سکے تو مجھے خوشبو سے معطر کر دو
پھول بن کے میرے بالوں میں اٹکتے کیوں ہو
تم جو کہتے ہو کوئی بات کبھی غزلوں میں
اپنے الفاظ میں کہنے سے جھجکتے کیوں ہو
ہم نہ کہتے تھے اسے کھویا تو مر جاؤ گے
اب چراغوں کی طرح شب کو سسکتے کیوں ہو
جس کو جانے دیا روکا بھی نہیں الفت میں
اس کے سائے سے سر شام لپٹتے کیوں ہو
میرے دل سے کب کسی ہمدرد نے پوچھا
تم شب ہجر کے لمحوں میں بکھرتے کیوں ہو
جس نے خود سے کبھی اقرار محبت نہ کیا
اس کی خاطر بھری دنیا سے الجھتے کیوں ہو
شگفتہ ناز
No comments:
Post a Comment