Sunday 30 May 2021

عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں

 عورت ہوں مگر صورتِ کہسار کھڑی ہوں

اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں

وہ مجھ سے ستاروں کا پتہ پوچھ رہا ہے

پتھر کی طرح جس کی انگوٹھی میں جڑی ہوں

الفاظ، نہ آواز، نہ ہمراز، نہ دمساز

یہ کیسے دوراہے پہ میں خاموش کھڑی ہوں

اس دشتِ بلا میں نہ سمجھ خود کو اکیلا

میں چوب کی صورت تِرے خیمے میں گڑی ہوں

پھولوں پہ برستی ہوں کبھی صورت شبنم

بدلی ہوئی رُت میں کبھی ساون کی جھڑی ہوں


فرحت زاہد

No comments:

Post a Comment