Saturday 29 May 2021

محبت سے جہاں تسخیر کرنا چاہتے ہیں

 محبت سے جہاں تسخیر کرنا چاہتے ہیں

ہم اپنے خواب کو تعبیر کرنا چاہتے ہیں

ابھی تک اس دلِ وحشی کو سودا ہے جنوں کا

سو اس وحشت کو اب زنجیر کرنا چاہتے ہیں

نہیں ہے آبلہ پائیِ خواہش تھک چکے ہیں

سفر میں اب کہ ہم تاخیر کرنا چاہتے ہیں

بساطِ زندگی پہ جو بھی بازی کھیلتے ہیں

اسے پھر جیت کر تقدیر کرنا چاہتے ہیں

نہیں ہیں کم نسب سو اعلیٰ ظرفی کا تقاضا

کہ ہم دشمن کی بھی توقیر کرنا چاہتے ہیں


ذکیہ غزل

No comments:

Post a Comment