محبت سے جہاں تسخیر کرنا چاہتے ہیں
ہم اپنے خواب کو تعبیر کرنا چاہتے ہیں
ابھی تک اس دلِ وحشی کو سودا ہے جنوں کا
سو اس وحشت کو اب زنجیر کرنا چاہتے ہیں
نہیں ہے آبلہ پائیِ خواہش تھک چکے ہیں
سفر میں اب کہ ہم تاخیر کرنا چاہتے ہیں
بساطِ زندگی پہ جو بھی بازی کھیلتے ہیں
اسے پھر جیت کر تقدیر کرنا چاہتے ہیں
نہیں ہیں کم نسب سو اعلیٰ ظرفی کا تقاضا
کہ ہم دشمن کی بھی توقیر کرنا چاہتے ہیں
ذکیہ غزل
No comments:
Post a Comment