یہ مسافت نہیں آسان، کہاں جاتا ہے؟
اور پھر بے سر و سامان کہاں جاتا ہے
لوگ اس راہ سے عجلت میں گزر جاتے ہیں
بے چراغی کی طرف دھیان کہاں جاتا ہے
آج کل خواب کے بارے میں ہے تشویش مجھے
آنکھ کھُلتے ہی یہ مہمان کہاں جاتا ہے
ایک نادیدہ سی زنجیر لیے پھرتی ہے
اپنی مرضی سے یہ انسان کہاں جاتا ہے
شام ہوتے ہی کہاں جاتا ہوں، کیا بتلاؤں
آدمی ہو کے پریشان کہاں جاتا ہے
اس طرف کوئی رفوگر ہے نہ دشتِ وحشت
روز یہ چاک گریبان کہاں جاتا ہے
خود بھی حیران ہوں میں اس سے گلے ملتے وقت
میرے اندر کا یہ حیوان کہاں جاتا ہے
خوف آتا ہے در و بام کو کاشف غائر
جانے اس گھر کا نگہبان کہاں جاتا ہے
کاشف حسین غائر
No comments:
Post a Comment