Monday, 31 May 2021

یہ الگ بات کہ ہم سا نہیں پیاسا کوئی

 یہ الگ بات کہ ہم سا نہیں پیاسا کوئی

پھر بھی دریا سے تعلق نہیں رکھا کوئی

میرے مکتب کو دھماکے سے اڑایا گیا ہے

اب کہ ہاتھوں میں کتابیں ہیں نہ بستہ کوئی

جانے کس اور گیا قافلہ امیدوں کا

دل کے صحرا میں نہیں آس کا خیمہ کوئی

کس عجب دھن میں یہاں عمر گنوائی ہم نے

قرض مٹی کا اتارا نہ ہی اپنا کوئی

پیاس کے ہاتھوں مِرا قتل ہوا ہے نعمان

دوست دریا تھے مگر پاس نہ آیا کوئی


نعمان فاروق

No comments:

Post a Comment