ہجر کی تلخیاں سہوں گی نہیں
تب تم آؤ گے، جب میں ہوں گی نہیں
دل کی باتیں جو روک رکھی ہیں
یہ بھی طے ہے کبھی کہوں گی نہیں
بھیگی آنکھوں میں اشک ہوں گے بس
مسکراتی ہوئی ملوں گی نہیں
گر تمہیں بھولنے کا سوچ لیا
پھر تو اپنی بھی میں سنوں گی نہیں
میں نے جب فیصلہ سنایا تو
ڈٹ ہی جاؤں گی پھر ہٹوں گی نہیں
میں بھی ضدی ہوں ایک نمبر کی
تم اگر نا ملے، جیوں گی نہیں
آخری سانس تھام لی ہے کنول
اس کو دیکھے بنا مروں گی نہیں
کنول ملک
No comments:
Post a Comment