Friday, 28 May 2021

وبا کے دنوں میں محبت بھی کیا ہے

 وبا کے دنوں میں محبت بھی کیا ہے


فقط دور سے ہی یہ نظریں ملانا

زباں میں اشاروں کی الفت جتانا

غزل دور سے ہی کوئی گنگنانا

خدارا ذرا بھی قریں تم نہ آنا

طبیبوں سے میں نے یہی کل سنا ہے

وبا ہے، قضا ہے، وبا ہے، قضا ہے


یہ شہروں پہ کیسی مصیبت پڑی ہے

ہر اک جا ہیں لاشیں یہ مشکل گھڑی ہے

کہ سنسان سڑکوں پہ آفت کھڑی ہے

وہ ہُو کا ہے عالم کہ دھڑکن بڑی ہے

سبھی کو بچا لے تِرا آسرا ہے

وبا ہے، قضا ہے، وبا ہے، قضا ہے


اسی واسطے کیا یہ پودے تھے سینچے

نہ کلیاں کھلی ہیں نہ یہ پھول مہکے

نہ کوئی پریمی نہ پنچھی ہیں چہکے

درختوں کے اوپر درختوں کے نیچے

عجب سی ہے وحشت عجب سا خلا ہے

وبا ہے، قضا ہے، وبا ہے، قضا ہے


نہ کوئی محبت نہ کوئی مسرت

کہاں کی یہ چاہت کہاں کی یہ قربت

کبھی خوفِ جاں اور کبھی دل کی حسرت

سبھی کو ہے لاحق عجب یہ مصیبت

یہ دنیا ہے حامی کہ وحشت سرا ہے

وبا ہے، قضا ہے، وبا ہے، قضا ہے


حمزہ حامی

No comments:

Post a Comment