وبا کے دنوں میں محبت بھی کیا ہے
فقط دور سے ہی یہ نظریں ملانا
زباں میں اشاروں کی الفت جتانا
غزل دور سے ہی کوئی گنگنانا
خدارا ذرا بھی قریں تم نہ آنا
طبیبوں سے میں نے یہی کل سنا ہے
وبا ہے، قضا ہے، وبا ہے، قضا ہے
یہ شہروں پہ کیسی مصیبت پڑی ہے
ہر اک جا ہیں لاشیں یہ مشکل گھڑی ہے
کہ سنسان سڑکوں پہ آفت کھڑی ہے
وہ ہُو کا ہے عالم کہ دھڑکن بڑی ہے
سبھی کو بچا لے تِرا آسرا ہے
وبا ہے، قضا ہے، وبا ہے، قضا ہے
اسی واسطے کیا یہ پودے تھے سینچے
نہ کلیاں کھلی ہیں نہ یہ پھول مہکے
نہ کوئی پریمی نہ پنچھی ہیں چہکے
درختوں کے اوپر درختوں کے نیچے
عجب سی ہے وحشت عجب سا خلا ہے
وبا ہے، قضا ہے، وبا ہے، قضا ہے
نہ کوئی محبت نہ کوئی مسرت
کہاں کی یہ چاہت کہاں کی یہ قربت
کبھی خوفِ جاں اور کبھی دل کی حسرت
سبھی کو ہے لاحق عجب یہ مصیبت
یہ دنیا ہے حامی کہ وحشت سرا ہے
وبا ہے، قضا ہے، وبا ہے، قضا ہے
حمزہ حامی
No comments:
Post a Comment