کسی بھی غیر پر فدا نہیں ہوا
بچھڑ گیا ہوں پر جدا نہیں ہوا
وہ جا چکا ہے چھوڑ کر مجھے مگر
یوں لگتا ہے کہ وہ گیا نہیں ہوا
چراغِ انتظار تابناک ہے
کسی سے میرا غم چھپا نہیں ہوا
بہت سے وعدے اپنے درمیاں ہوئے
جو وعدہ بھی ہوا وفا نہیں ہوا
محبتوں سے اعتبار اٹھ گیا
زیادہ اس سے کچھ برا نہیں ہوا
جنابِ حق کا ہو یا ان کے بندوں کا
کسی کا ہم سے حق ادا نہیں ہوا
یہ تیرے بندے تھے بنانا چاہتے
میں تیرے بندوں کا خدا نہیں ہوا
توصیف زیدی
No comments:
Post a Comment