Saturday, 29 May 2021

نیند دبے پاؤں چلی آتی ہے

 واردات


نیند دبے پاؤں چلی آتی ہے

جسم سونے سے انکاری

سپنے اشتہاری

دل میں ڈر کے سندیسے بھاگتے پھرتے ہیں

خوف چھلاوہ بن کر دستک دیتا ہے

تیری یاد

آسیب کی مانند

جنتر منتر

آنکھیں ستارہ ہو جاتی ہیں

شب بھر

یادوں کی پٹاری کھلتی جاتی ہے

صبح سویرے

واردات کے نقش مٹانے کی خاطر

خود کو تازہ اخبار بنانا پڑتا ہے


امجد بابر

No comments:

Post a Comment