واردات
نیند دبے پاؤں چلی آتی ہے
جسم سونے سے انکاری
سپنے اشتہاری
دل میں ڈر کے سندیسے بھاگتے پھرتے ہیں
خوف چھلاوہ بن کر دستک دیتا ہے
تیری یاد
آسیب کی مانند
جنتر منتر
آنکھیں ستارہ ہو جاتی ہیں
شب بھر
یادوں کی پٹاری کھلتی جاتی ہے
صبح سویرے
واردات کے نقش مٹانے کی خاطر
خود کو تازہ اخبار بنانا پڑتا ہے
امجد بابر
No comments:
Post a Comment