دل و نگاہ کی حیرت میں رہ گئے ہیں ہم
خمارِ خواب کی لذت میں رہ گئے ہیں ہم
چرا کے لے گئی دنیائے پُر فریب اس کو
اور اپنی سادہ طبیعت میں رہ گئے ہیں ہم
ہمیں تو کھینچ رہا تھا سفر تِری جانب
بس اس جہاں کی روایت میں رہ گئے ہیں ہم
وہ دیکھتا ہے کہ جیسے نہ ہم کو دیکھا ہو
اس آئینے کی شرارت میں رہ گئے ہیں ہم
ہمیں تلاش رہا تھا وصال کا لمحہ
کسی کے ہجر کی ساعت میں رہ گئے ہیں ہم
ہوا کے ساتھ کہاں تک گلاب جا سکتے
بکھر کے راہِ محبت میں رہ گئے ہیں ہم
وہ اپنے خواب کے ہم راہ جا چکا ہے ناز
اکیلے اپنی حقیقت میں رہ گئے ہیں ہم
ناز بٹ
No comments:
Post a Comment