ہمیں پنجرے میں پر بھیجے گئے ہیں
یہ تحفے سوچ کر بھیجے گئے
تمہارے ہجر سے اچھی وبا ہے
کم از کم لوگ گھر بھیجے گئے ہیں
یہ کس وحشت سے شاخیں کانپتی ہیں
پرندے کس نگر بھیجے گئے ہیں
دیے کی لو پہ سکتہ کس لیے ہے
یہ جھونکے کس کے گھر بھیجے گئے ہیں
ہم اب کی بار اس سے جب ملے تو
لگا کہ کام پر بھیجے گئے ہیں
کہاں اس نے فرشتے بھیجنے تھے
کہاں یہ جانور بھیجے گئے ہیں
پلنگ، پیتل کے برتن، رِیت رسمیں
کسی نیلام گھر بھیجے گئے ہیں
رقیہ مالک
No comments:
Post a Comment