Saturday 29 May 2021

نظر سے گر کے نظر وہ اتارتی کیسے

 نظر سے گر کے نظر وہ اتارتی کیسے

فریب کھائے ہوؤں پر سلامتی کیسے

وہ چاہتی تھی مگر ساتھ میں نے خود چھوڑا

زمانہ ساز تھی موقع وہ ٹالتی کیسے

جسے بگاڑ دیا غیر کی محبت نے

اسے ہماری محبت سدھارتی کیسے

میں سامنے تھا مگر سر نہیں اٹھا اس کا

نظر اٹھاتی بھی کیسے پکارتی کیسے

میں گر کے اٹھنا بھی چاہوں تو کس سہارے پر

میں کیوں سنبھلتا مجھے وہ سنبھالتی کیسے

مجھے گماں تھا مقدر سنورنے والے ہیں

مفارقت پہ اڑی تھی سنوارتی کیسے

اسے خبر تھی میں اس پر یقین رکھتا ہوں

مکر سے وار نہ کرتی تو مارتی کیسے

اسے تو چھوڑ ہی جانا تھا کیا گِلہ حامد

بتا یہ کیسے بھلا بد دیانتی کیسے


حامد رضا خاں بریلوی

No comments:

Post a Comment