نظر سے گر کے نظر وہ اتارتی کیسے
فریب کھائے ہوؤں پر سلامتی کیسے
وہ چاہتی تھی مگر ساتھ میں نے خود چھوڑا
زمانہ ساز تھی موقع وہ ٹالتی کیسے
جسے بگاڑ دیا غیر کی محبت نے
اسے ہماری محبت سدھارتی کیسے
میں سامنے تھا مگر سر نہیں اٹھا اس کا
نظر اٹھاتی بھی کیسے پکارتی کیسے
میں گر کے اٹھنا بھی چاہوں تو کس سہارے پر
میں کیوں سنبھلتا مجھے وہ سنبھالتی کیسے
مجھے گماں تھا مقدر سنورنے والے ہیں
مفارقت پہ اڑی تھی سنوارتی کیسے
اسے خبر تھی میں اس پر یقین رکھتا ہوں
مکر سے وار نہ کرتی تو مارتی کیسے
اسے تو چھوڑ ہی جانا تھا کیا گِلہ حامد
بتا یہ کیسے بھلا بد دیانتی کیسے
حامد رضا خاں بریلوی
No comments:
Post a Comment