کر جاتے ہیں بے تاب یہ کم ذات ستمگر
اک دل کی تڑپ دُوجی یہ برسات ستمگر
کر لیتی میں تسخیر محبت کے جہاں کو
بن جاتے ہیں افسوس خیالات ستمگر
حالات نے رکھا جو کسوٹی پہ مِرا دل
میں کیا کہوں ہر رات ہوئی رات ستمگر
چہرے کی ہنسی مخلصی اور شاعری میری
مل جل کے مجھے دیتے رہے مات ستمگر
میں توڑ کے رکھ دیتی حوادث کی کمر کو
اس دل کی مکیں ہوتی نہ وہ ذات ستمگر
رضوانہ ملک
No comments:
Post a Comment