وجود وجد میں آئے تو عشق لازم ہے
خودی کو خاص بلائے تو عشق لازم ہے
خرد سے خوف نہ کھاؤ خزاں نہ آئے گی
شعور شور مچائے تو عشق لازم ہے
دیارِ دل میں صدائیں سنائی جو دی ہیں
سماعتیں بھی سنائے تو عشق لازم ہے
تلاشِ خواب نے اب جاگنا بھی چھوڑ دیا
جواب عشق نہ آئے تو عشق لازم ہے
ضمیر خوف سے کُن فیکون سنتا رہا
کہ دل کا درد ستائے تو عشق لازم ہے
مِرے خیال کی سرحد گئی سمندر تک
یقین شمع جلائے تو عشق لازم ہے
وفا کے نام پہ سیما جو زہر پیتا ہے
ہمیں بھی دل یہ پلائے تو عشق لازم ہے
سیما عباسی
No comments:
Post a Comment