Saturday 29 May 2021

وجود وجد میں آئے تو عشق لازم ہے

 وجود وجد میں آئے تو عشق لازم ہے

خودی کو خاص بلائے تو عشق لازم ہے

خرد سے خوف نہ کھاؤ خزاں نہ آئے گی

شعور شور مچائے تو عشق لازم ہے

دیارِ دل میں صدائیں سنائی جو دی ہیں

سماعتیں بھی سنائے تو عشق لازم ہے

تلاشِ خواب نے اب جاگنا بھی چھوڑ دیا

جواب عشق نہ آئے تو عشق لازم ہے

ضمیر خوف سے کُن فیکون سنتا رہا

کہ دل کا درد ستائے تو عشق لازم ہے

مِرے خیال کی سرحد گئی سمندر تک

یقین شمع جلائے تو عشق لازم ہے

وفا کے نام پہ سیما جو زہر پیتا ہے

ہمیں بھی دل یہ پلائے تو عشق لازم ہے


سیما عباسی

No comments:

Post a Comment