میں اسے زندگی سے ڈسواتا
کاش ہوتا اجل کا اک بیٹا
تن کو بھُونا زمیں کے شعلوں پر
میں نے دوزخ سے اپنا رزق لیا
یہ زمیں گندگی کا ڈھیر بھی ہے
تُو فقط باغ میں پھرے بہکا
"لہو اپنا پیوں ہوں جیتا ہوں"
میں نے چھاتی کو میر سے کُوٹا
زندگی ہے کہ چھاؤں کیکر کی
جل گیا ہوں میں سائے میں بیٹھا
میرے حصے کی ہے زمین کدھر
اے اجل! رہنمائی تو کرنا
گھُورتی ہے خدا کی آنکھ مجھے
میں نے آدم کا مرثیہ لکھا
رفیق اظہر
No comments:
Post a Comment