Monday 31 May 2021

میں اسے زندگی سے ڈسواتا

 میں اسے زندگی سے ڈسواتا

کاش ہوتا اجل کا اک بیٹا

تن کو بھُونا زمیں کے شعلوں پر

میں نے دوزخ سے اپنا رزق لیا

یہ زمیں گندگی کا ڈھیر بھی ہے

تُو فقط باغ میں پھرے بہکا

"لہو اپنا پیوں ہوں جیتا ہوں"

میں نے چھاتی کو میر سے کُوٹا

زندگی ہے کہ چھاؤں کیکر کی

جل گیا ہوں میں سائے میں بیٹھا

میرے حصے کی ہے زمین کدھر

اے اجل! رہنمائی تو کرنا

گھُورتی ہے خدا کی آنکھ مجھے

میں نے آدم کا مرثیہ لکھا


رفیق اظہر

No comments:

Post a Comment