Saturday, 29 May 2021

ہنستے یاروں کی دلآزاری نہیں ہو سکتی

 ہنستے یاروں کی دلآزاری نہیں ہو سکتی

دل! ابھی تیری عزاداری نہیں ہو سکتی

طیش میں بات کوئی ذہن میں بیٹھے گی کہاں

سخت موسم میں شجر کاری نہیں ہو سکتی

آنکھ باقی ہے مگر ذوقِ نظر خرچ ہوا

جیب خالی سے خریداری نہیں ہو سکتی

جتنا آسان اسے موت نے سمجھا ہوا ہے

زندگی اتنی بھی بے چاری نہیں ہو سکتی

یار! ایمان رکھو،مر تو نہیں جاؤ گے

عاشقی کچھ بھی ہو، بیماری نہیں ہو سکتی

قہقہے اتنے نہ کردار مِرے میں ڈالیں

مجھ سے اس درجہ اداکاری نہیں ہو سکتی

کون روکے گا جواں فکر کی آزادہ روی

اب یہ دوشیزہ کبھی کاری نہیں ہو سکتی

بعض اوقات غلط کوش ہیں خود بھی نکلے

اندھا دُھند اپنی طرفداری نہیں ہو سکتی

اور بھی اہل ہیں اس شہر میں افراد کئی

جسم پر دل کی ہی سرداری نہیں ہو سکتی

صرف آنے کی ہے ترتیب یہاں پر احمد

لوٹ جانے کی کوئی باری نہیں ہو سکتی


حبیب احمد

No comments:

Post a Comment