میں دیکھوں تو مجھ پہ محبت کھلتی ہے
وہ دیکھے تو اور حقیقت کھلتی ہے
وہ دل جس پر ہجر میں ہجرت کھلتی ہے
صرف اسی پر رمزِ شہادت کھلتی ہے
جیتے جی آزار سمجھتے ہیں جن کو
وہ نہ رہیں تو قدر و قیمت کھلتی ہے
عشق ہے کیا، وحشت میں پردہ اٹھتا ہے
وحشت ہے کیا، دشت میں وحشت کھلتی ہے
آئینہ جب مجھ سے آنکھ ملاتا ہے
آئینے پر عکس کی حیرت کھلتی ہے
چپ بیٹھوں تو لوگوں سے کٹ جاتا ہوں
بولوں تو اس شخص سے قربت کھلتی ہے
شبیر نازش
No comments:
Post a Comment