وہ طاق وہ چھت وہ محرابیں وہ گھر وہ عمارت مانگے ہے
انگنائی میں بیلے جوہی کی خوشبو کی طراوت مانگے ہے
وہ ٹھنڈی ہوا، وہ پگڈنڈی، سبزے کی لہک، وہ ہریالی
اور شام کی ہلکی خنکی میں جگنو کی حرارت مانگے ہے
اس شہر میں کیا کیا جگمگ ہے لیکن یہ دل سادہ میرا
کلیوں کی کہانی مانگے ہے پھولوں کی حکایت مانگے ہے
ہو نیم کا ایک چھتنار درخت اور سائے میں اس کے سبزے ہوں
اور سبزے کی نرمی پر یہ دل سونے کی اجازت مانگے ہے
صوفیہ انجم تاج
No comments:
Post a Comment