Sunday 30 May 2021

شاعری روح میں تحلیل نہیں ہو پاتی

 شاعری روح میں تحلیل نہیں ہو پاتی

ہم سے جذبات کی تشکیل نہیں ہو پاتی

ہم ملازم ہیں مگر تھوڑی انا رکھتے ہیں

ہم سے ہر حکم کی تعمیل نہیں ہو پاتی

آسماں چھین لیا کرتا ہے سارا پانی

آنکھ بھرتی ہے مگر جھیل نہیں ہو پاتی

شام تک ٹوٹ کے ہر روز بکھر جاتا ہوں

یاس امید میں تبدیل نہیں ہو پاتی

رات بھر نیند کے صحرا میں بھٹکتا ہوں مگر

صبح تک خواب کی تکمیل نہیں ہو پاتی


شکیل اعظمی

No comments:

Post a Comment