نہیں یہ بھی نہیں اچھا اگرچہ
اسے سمجھی نہیں دنیا اگرچہ
مگر ہم سہتے سہتے سہہ گئے ہیں
جدائی تھی بڑا صدمہ اگرچہ
مگر پھر بھی بہت بکھرا پڑا ہوں
کیا خود کو بہت یکجا اگرچہ
تمہارے کام آنے کا نہیں ہے
تمہارے پاس ہے پیسہ اگرچہ
مگر تم سا کہاں سے مل سکے گا
یہاں ہر کوئی ہے تم سا اگرچہ
مگر ہر بار توڑی تیری خاطر
بہت ہم نے بھی کی توبہ اگرچہ
مگر رسوائی کے زمرے میں ہے وہ
ہر اک سُو ہے ترا چرچا اگرچہ
اُسے کھانا ہے مجبوری ہماری
محبت ہے بڑا دھوکا اگرچہ
چل اپنا شریکِ رزق تو ہے
نہیں وہ کام کا بندہ اگرچہ
ہمیں سیراب کرنے سے ہے قاصر
ہمارے دل میں ہے دریا اگرچہ
اُسے پھر بھی نہ حاصل کر سکے ہم
ہماری دسترس میں تھا اگرچہ
مگر اچھی طرح کب دیکھ پائے
اسے ہم نے بہت گھُورا اگرچہ
تعلق بے رُخی کا تو ہے موجود
نہیں اُن سے مرا رشتہ اگرچہ
چلاتا ہے خدائے پاک نامی
زیادہ ہے مِرا خرچہ اگرچہ
رستم نامی
No comments:
Post a Comment