ہمارے کام رفتہ رفتہ سارے بن رہے تھے
کہ دریا چل پڑا تھا اور کنارے بن رہے تھے
کسی سے گفتگو آغاز ہونا چاہتی تھی
خدا نے بولنا تھا تیس پارے بن رہے تھے
بچھایا جا چکا تھا ایک بچھونا آسماں پر
ابھی مہتاب بننا تھا، ستارے بن رہے تھے
کہیں پر پنجۂ مریم میں آتش پھیلتی تھی
کہیں پر زکریا تھا اور آرے بن رہے تھے
چھپائی جا رہی تھی آگ سی اس میں کوئی شے
ہوا معلوم یہ وہ دل ہمارے بن رہے تھے
مِری نگران تھیں آنکھیں جہاں پر تُو کھڑی تھی
جہاں پر تیری نظریں تھیں نظارے بن رہے تھے
رُکی تھی خلق میں آواز سے ملتی کوئی چیز
تھی کوئی بات جو اتنے اشارے بن رہے تھے
جہاں پر تیز بارش تھی وہیں تھی بند ڈِبیہ
وہیں سے ہوتے ہوتے سرخ دھارے بن رہے تھے
گلی میں شور سا برپا تھا اور بچے گھروں میں
نکلنے والے تھے، رنگیں غبارے بن رہے تھے
اقتدار جاوید
No comments:
Post a Comment