Saturday 29 May 2021

ہمارے کام رفتہ رفتہ سارے بن رہے تھے

 ہمارے کام رفتہ رفتہ سارے بن رہے تھے

کہ دریا چل پڑا تھا اور کنارے بن رہے تھے

کسی سے گفتگو آغاز ہونا چاہتی تھی

خدا نے بولنا تھا تیس پارے بن رہے تھے

بچھایا جا چکا تھا ایک بچھونا آسماں پر

ابھی مہتاب بننا تھا، ستارے بن رہے تھے

کہیں پر پنجۂ مریم میں آتش پھیلتی تھی

کہیں پر زکریا تھا اور آرے بن رہے تھے

چھپائی جا رہی تھی آگ سی اس میں کوئی شے

ہوا معلوم یہ وہ دل ہمارے بن رہے تھے

مِری نگران تھیں آنکھیں جہاں پر تُو کھڑی تھی

جہاں پر تیری نظریں تھیں نظارے بن رہے تھے

رُکی تھی خلق میں آواز سے ملتی کوئی چیز

تھی کوئی بات جو اتنے اشارے بن رہے تھے

جہاں پر تیز بارش تھی وہیں تھی بند ڈِبیہ

وہیں سے ہوتے ہوتے سرخ دھارے بن رہے تھے

گلی میں شور سا برپا تھا اور بچے گھروں میں

نکلنے والے تھے، رنگیں غبارے بن رہے تھے


اقتدار جاوید

No comments:

Post a Comment