تیری مخروطی ہیروں سے جھلمل بھری انگلیوں نے
ذرا تار چھیڑے تو دکھ کیسے رِس رِس کے
تاروں سے بہنے لگا، اک ترے ساتھ رہنے سے
مجھ پر کھُلا کس طرح صبح ابھرنے سے پہلے
کہیں خود کو دھوتی ہے، دُھل کے تری سمت
کیسے لپکتی ہے،۔ جب فصل پکتی ہے
بوڑھے کسانوں کے مجمع پہ کس رنگ کے پھول گرتے ہیں
کیسے بھلا آدمی اپنی تفہیم کرتا ہے
کیا چیز ایسی چمکتی ہے، وہ اپنی تعظیم کرتا ہے
جو کچھ فلک کے علاقوں میں پوشیدہ ہوتا ہے
ان پر وہ ایمان لاتا ہے، اک سینہ افگار
حلّاف ہنس ہنس کے حالت بتاتا ہے
آپے سے باہر نکل جاتا ہے، باغ میں
باغ کی پاک راہداریوں میں بھٹکتا ہے
پھولوں کی جانب نکلتا ہے، پتّوں کی گہری لکیروں کو
تکتا ہے، جھیلوں پہ جاتا ہے، گہری دوپہروں میں
جب پانی جلتا ہے، تب آدمی اپنے ہاتھوں سے
جھیلوں کو ڈھکتا ہے، اس کی نظر
پانی میں عکس پر پڑتی ہے، اور وہ جان لیتا ہے
پانی کے سیّال آئینے میں آدمی رقص کر سکتا ہے
اقتدار جاوید
No comments:
Post a Comment