Monday 31 May 2021

یقیناً کچھ بڑے عشاق کے رتبے گھٹے ہوں گے

 یقیناً کچھ بڑے عشاق کے رتبے گھٹے ہوں گے

ہماری دھول سے جب دشت کے ٹیلے اٹے ہوں گے

ابھی دریاؤں سے اپنی زمینیں مت طلب کرنا

ابھی سیلاب کے ریلے کہاں پیچھے ہٹے ہوں گے

غریبوں کے مکانوں میں کوئی خامی تو رہتی ہے

در و دیوار پختہ ہوں بھی تو پردے پھٹے ہوں گے

انہیں سالار کی بڑھتی ہوئی دولتِ سے کیا لینا

سپاہی تو سپاہی ہیں محاذوں پر ڈٹے ہوں گے

بڑا سُلجھا ہوا پانی ہے، کوئی چھت نہیں ٹپکی

کسی کی آنکھ میں ٹھہرے ہوئے بادل چھٹے ہوں گے

کسے آداب آتے ہیں جھجک کر بات کرنے کے

ہمارے بعد شہزادی کے دن مشکل کٹے ہوں گے

اسے تحفے میں بھیجوں گا پرانی ڈائری ساجد

کئی الفاظ گم ہوں گے کئی صفحے پھٹے ہوں گے


لطیف ساجد

No comments:

Post a Comment