مجسمہ
بڑی مشکل سے خود کو
پتھروں کے بیچ ڈھالا ہے
بڑی دشواریوں کے بعد
اس دل کو سنبھالا ہے
مگر صدیوں کے بعد اس نے
کوئی پیغام بھیجا ہے
مرے آغازکو پھر سے
نیا انجام بھیجا ہے
سو اب دل چاہتا ہے کہ
مدھر نغموں میں کھو جاؤں
کسی کے ان کہے جملوں کو
من ہی من میں دہراؤں
کسی کے نام پر پھر سے
میں اب کچھ اور ہو جاؤں
مگر اب میں سلے ہونٹوں میں
کوئی گپت نغمہ ہوں
میں اب ان پتھروں کے بیچ
اک سنگی مجسمہ ہوں
صائمہ اسحاق
No comments:
Post a Comment