خموشی ثبت ہے لب پر صدا مقیّد ہے
ستم تو یہ ہے کہ اب کے دعا مقید ہے
علاج کیسے کروں شہرِ ناتواں تیرا
طبیب پست ہوئے اور دوا مقید ہے
دریدہ جسم ترستے ہیں سکھ کی چادر کو
امیرِ شہر! بتا، کیوں ردا مقید ہے؟
خوشی کی آنکھ سے ہر وقت اشک جاری ہیں
ہوا بھی زرد ہے، سُکھ کی ادا مقید ہے
صدا لگائیں بھی کس کو شہر کے لوگ حرا
ہر ایک شخص کا جب ہمنوا مقید ہے
حرا قاسمی
No comments:
Post a Comment