ہاتھ میں کتاب ہے
گُم شدہ نصاب ہے
کانٹوں کے حصار میں
سہما سا گلاب ہے
قید خانے سے فرار
روشنی کا خواب ہے
عاشقوں کے بخت میں
ہجر کا عذاب ہے
گوشوارے پر لکھا
سہما سا حساب ہے
مجھے سے ملنے کے لیے
وہ بڑا بے تاب ہے
بارشوں کی مستیاں
رقص میں سحاب ہے
اندھوں کا ہے اجتماع
بہروں سے خطاب ہے
خواہشوں کے درمیاں
زندگی عذاب ہے
اُس حسین چہرے پر
ریشمی نقاب ہے
دنیا داری بھی غلط
آخرت خراب ہے
امجد بابر
No comments:
Post a Comment